رسا ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن مجید نے کھانے پینے کے حوالے کوئی پابندی نہیں لگائی صرف اسراف سے منع کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا: سورہ اعراف میں کھانے پینے کے بارے حکم خداوند ہے کہ کھاﺅ پیو مگر فضول خرچی اور اسراف نہ کرو۔ غذا کی قدر کرنے کی اس قدر اہمیت ہے کہ کھانے کے برتن، پلیٹ کو انگلیوں سے صاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔
علامہ نجفی نے کہا کہ جس طرح زیادہ کھانا ممنوع اور نقصان دہ ہے اسی طرح بچ جانے والی غذاء کو پھینکنا یا ضائع کرنا بھی منع ہے۔ بچ جانیوالا کھانا ضائع کرنے کی بجائے محفوظ کر لیا جائے تاکہ بعد میں کھایا جاسکے یا کسی کو دے دیا جائے۔
انہوں نے کہا: کھانے میں اعتدال صحت کی ضمانت ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ بھوک، کم خوراک کی وجہ سے نہیں مرتے اور نہ بیمار ہوتے ہیں بلکہ زیادہ کھانے کی وجہ سے بیماری و موت کا شکار ہوتے ہیں۔
حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ پہلے زمانے کے لوگوں کی زیادہ عمر کا ایک راز خالص غذا اور غیر ضروری آسائشات کا نہ ہونا تھا۔ اب ناخالص غذاﺅں کیساتھ ساتھ خود کو غیر ضروری آسائشات کا عادی بنا لیا گیا ہے۔ مناسب حد تک سردی اور گرمی کا برداشت کرنا صحت کیلئے مفید ہے لیکن اکثر لوگ سردی و گرمی سے بچنے کی غیر ضروری سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں مناسب سردی و گرمی سے محروم ہوتے ہیں جس کا صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ جب یمن کے بادشاہ نے حضور اکرم کی خدمت میں ڈاکٹر کو بھیجا تھا تاکہ صحابہ کرام کی حفظان صحت کا خیال کرے تو حضور نے فرمایا تھا اس کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ لوگ فقط اس وقت کھاتے ہیں جب بھوک لگی ہو اور ابھی بھوک باقی ہوتی ہے کہ کھانا ختم کر دیتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر اُس وقت مدینہ آیا جب قیصر روم نے یمن کے بادشاہ کو حضور کیخلاف کارروائی کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ حضور نے بادشاہ ِ یمن کے نمائندوں کو بتایا کہ قیصر روم تو مرگیا ہے یہ ایک غیب کی خبر تھی کیونکہ اس زمانے میں کسی کے مرنے کی اطلاع دور کے مقامات پر کئی دنوں بعد ملتی تھی۔ اس غیبی خبر کو سن کر یمن کا بادشاہ بہت متاثر ہوا اور خیر سگالی کی طور پر آپ کی خدمت میں ڈاکٹر کو بھیجا۔
انہوں نے کہا : سورہ اعراف میں فرمایا گیا کہ اللہ نے زیب و زینت کی چیزوں کو انسانوں کیلئے حرام نہیں کیا۔ اسی سورہ مبارکہ میں مزید ارشاد ہوا "اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا"۔
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر نے امام جعفر صادق ؑ کے حوالہ سے نقل کرتے ہوئے کہا: امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی حکمت و دانائی سے غیر مسلموں کی اصلاح کی۔ ابن ابی العوجا ایک مشہور دہریہ (کمیونسٹ) تھا جو کہ آخرت کا منکر تھا۔ امام ؑ نے اس سے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں مرنے کے بعد کچھ نہیں ہوگا جبکہ اسلام کے مطابق حشر نشر قیامت، حساب کتاب ہوگا۔ فرض کریں جو آپ کا خیال ہے اگر ویسا ہوا تو آپ اور ہم برابر ہوں گے۔ ہمیں اس کا کوئی نقصان نہ ہوگا اور اگر حساب کتاب، قیامت وغیرہ ہوئی تو ہم تو اس کیلئے تیار ہیں، آپ کا انجام کیا ہوگا؟ وہ اس نقطہ پر متوجہ ہوا اور تسلیم کیا کہ امام کا موقف ٹھیک ہے۔ گزشتہ امتوں پر مختلف قسم کے عذاب آتے تھے اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم کے وجود کی برکت سے ان سے وعدہ فرمایا کہ حضور کے وجود کی وجہ سے عذاب نہ آئے گا اور جب تک لوگ استغفار کریں گے کوئی عذاب نہ آئے گا۔ /۹۸۸/ ن